پاکستان اس وقت مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے ۔ حکومت وقت کا اگرچہ دعویٰ ہے کہ معیشت نے بہتری کی طرف سفر شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں جلد مشکل دور کاخاتمہ ہوگا اور مہنگائی اوربے روزگاری میں کمی آئی گی، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ اسٹاک مارکیٹ میں ایک آدھ ماہ کی تیزی کے بعد پھر مندی نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں ، مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے ، بڑی تعداد میں صنعتی یونٹ بند ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔ حکومت ٹیکسوں کا ہدف بھی پورا کرنے میں ناکام ہے ۔ ایسے میں حکومتی دعوءوں پر یقین کیسے کیا جائے ۔ سخت حکومتی پالیساں اورٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اپنی جگہ لیکن معیشت کیلئے جو چیز سب سے زیادہ نقصاندہ ہے وہ حکومتی پالیسوں میں عدم تسلسل ہے جس نے ایک غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے ۔ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری رک گئی ہے اور ملکی معیشت کی صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے ۔ دیگر شعبوں کی طرح ریئل اسٹیٹ کا شعبہ بھی آج کل شدید مندی کاشکار ہے کیوں کہ حکومت کی غیر واضح پالیسوں کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری رک گئی ہے ۔ ماہرین کے مطابق ریئل اسٹیٹ میں نہ صرف نئی سرمایہ کاری رک گئی ہے بلکہ اس میں جوکھربوں روپے کا سرمایہ موجود ہے وہ بھی ایک طرح سے منجمد ہوگیا ہے ۔ سخت حکومتی پالیسیوں اور ایف بی آر کے خوف سے لوگ یہ سرمایہ نکال کرکہیں اور لگانے سے ڈرتے ہیں ۔ موجودہ حکومت کی نیت پر کسی کو شک نہیں لیکن اس کے طریقہ کار پر سب معترض ہیں ۔ ملکی معیشت کو راتوں رات مکمل شفاف اوردستاویزی بنانے کاخیال بہت اچھا ہے لیکن قابل عمل ہرگز نہیں ، اس پرعمل کرنے کا نتیجہ ملکی معیشت کی ابتر صورتحال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ معیشت کے بگاڑ کوختم کرنے کیلئے طویل دورانیہ پر مشتمل جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ آہستہ آہستہ اصلاحات کے نفاذ کا یہ فائدہ ہوگا کہ اس سے معیشت کاپہیہ ایک دم جام نہیں ہوگا ، کاروبار بھی چلے گا اور اس میں شفافیت بھی آئے گی ۔ جہاں تک ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کا تعلق ہے تویہ بات واضح ہے کہ جب تک حکومت اس کو غیر معمولی خصوصی رعایتیں نہیں دے گی نہ تواس میں مزید سرمایہ کاری ہوگی اورنہ ہی اس میں موجودخطیرسرما یہ کو نکلنے کاموقع ملے گا ۔ ارباب حل وعقد کو اس نکتہ پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینا ہوگی ۔