بحریہ ٹاءون کراچی کے مسئلے پر جماعت اسلامی کے احتجاجی دھرنے کے بعد ملک ریاض صاحب ادارہ نورحق آئے اور جماعت اسلامی کراچی کی قیادت سے مذاکرات کئے جس پر جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ ہاءوس پر احتجاجی مظاہرے کا اعلان واپس لیا ۔ اخبارات میں آنے والی تفصیلات کے مطابق ملک ریاض نے 35فیصد ترقیاتی اخراجات کو قواعط وضوابط کے عین مطابق قراردیتے ہوئے اس سے پیچھے ہٹنے سے صاف انکار کردیا جبکہ بحریہ ٹاءون کے متاثرین کے باقی مطالبات میں سے آدھے مان لئے اور آدھے مطالبات پر کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ جس دن یہ مذاکرات ہوئے اسی دن شام کوکراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈیفکلیریا کے صدر نور احمد ابریجو اور دیگر رہنماءوں نے یہ مذاکرات تسلیم کرنے سے انکار کیا اورکہاکہ معاملے کے اصل فریق ڈیفکلیریا ہے جس کے ممبران کے ذریعے لاکھوں افراد نے بحریہ ٹاءون میں سرمایہ کاری کی ہے اور اب ڈیفکلیریا کے یہ ممبران متاثرہ بحریہ ٹاءون کے سامنے جوابدہ بھی ہیں ، اس لئے بحریہ ٹاءون کے چیئرمین کو ڈیفکلیریا کے ساتھ مذاکرات کرکے معاملات کا حل نکالنا چاہئے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بحریہ ٹاءون کراچی ایک شاندار ہاءوسنگ منصوبہ ہے اوراس کی کامیابی اگر ایک طرف یہاں سرمایہ کاری کرنے والے لاکھوں افراد کے لئے بہت اہم ہے تودوسرے طرف ملکی معیشت کیلئے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ ڈیفکلیریا کے اعدادوشمار کے مطابق بحریہ ٹاءون کراچی میں سرمایہ کاری کرنےو الے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ ان لوگوں نے پردیس میں محنت مزدوری کرکے جو کمایاوہ قیمتی زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان بھیجا ۔ پاکستان کی معیشت میں بیرون ملک سے تارکین وطن جو زرمبادلہ بھیجتے ہیں اس کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر بحریہ ٹاءون کا معاملہ طول پکڑ گیا تو اس سے اس ہاءوسنگ منصوبے کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی اوراس میں سرمایہ کاری رک جائے گی ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچنے گا اور وہ آئندہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں گے جس کا ملکی معیشت پر براہ راست اثر پڑے گا ۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل ملکی معیشت کی بہتری کیلئے سب سے زیادہ توقعات بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے وابستہ کی تھیں اورشائد اب بھی ان کو امید ہے کہ ملک میں جب گورننس بہتر ہوگی توتارکین وطن کی جانب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی اور یوں ملک کے معاشی حالات بہتر ہوں گے ۔ اگر وزیراعظم چاہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے وابستہ امیدیں پوری ہوں توان کو فوری طورپر بحریہ ٹاءون کراچی کے معاملے کا نوٹس لینا چاہئے ۔ اسے صرف ایک شہر کا مسئلہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اورنہ ہی اس کو صرف مقامی سیاسی جماعتوں یا ریئل اسٹیٹ سے وابستہ تنظیموں کی ذمہ داری سمجھناچاہئے بلکہ ایسے ایک قومی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا چاہئے ۔ اراکین پارلیمنٹ کو چاہئے کہ یہ معاملہ قومی اسمبلی اورسینیٹ میں اٹھائے ۔ حکومت کی جانب سے اس پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنانی چاہئے جو غیر جانبداری کے ساتھ تمام معاملات کی چھان بین کرے اور اس معاملے کا ایسا حل نکالے جو بحریہ ٹاءون کے مالک ملک ریاض
اورمتاثرین دونوں کیلئے قابل قبول ہو ۔ فریقین اگر نیک نیت ہوں تو مسئلے کا حل نکالنا کوئی مشکل نہیں لیکن اگر نیتوں میں فتور ہوتو معاملات مزید بگڑیں گے کیوں کہ دوسرے کو دھوکہ دے کر یاجھوٹے وعدے کرکے ہم کسی تنازع کو وقتی طورپر تودباسکتے ہیں لیکن اس کا پائیدار حل نہیں نکال سکتے، ایسی صورت میں معاملات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزیدگمبھیر ہوتے جائیں گے ۔ رئیل اسٹیٹ بزنس سے وابستہ تمام لوگ چاہتے ہیں کہ بحریہ ٹاءون کے معاملات حل ہوں ،یہ منصوبہ کامیاب ہوجائے تاکہ ملک میں اس جیسے اور بھی ہاءوسنگ منصوبے شروع ہوں اوربیرون ملک سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ آئے تاکہ پاکستان کی معاشی مشکلات ختم ہوں اور ہم بھی معاشی طورپر ایک مضبوط ملک بن جائے ۔ اللہ کرے اہل وطن کی یہ خواہش جلد از جلد پوری ہو ۔