- یورپ،امریکہ میں مقیم پاکستانی مستقبل قریب میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بڑی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں
- نائن الیون کے بعد بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے وطن میں جائیدادیں خریدنا شروع کی تھیں
- "یورپ ایک محفوظ جنت "کا تصور دم توڑ چکا ، تارکین وطن اب پاکستان میں اثاثے بنانے کاسوچیں گے
- انسانی فطرت ہے کہ وہ سخت حالات میں وطن کو یاد کرتا ہے، کیوں کہ وطن میں تحفظ کا احسا س زیادہ ہوتاہے
- آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے ؟ کیا آپ اس تجزیئے سے متفق ہیں ؟ نیچے دیئے گئے نمبر پر اپنی رائے ضرور دیجئے
کراچی( تجزیہ: نظیرعالم نظیر)کورونا وائرس کی وبا نے چونکہ پوری دنیا کو لاک ڈاءون پر مجبور کردیا ہے اس لئے اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ وبا عالمی معیشت کیلئے بہت ہی تباہ کن ثابت ہوئی ہے ، اب تک جو نقصان ہوا ہے وہ بھی بہت بڑا ہے جبکہ تاحال حتمی طورپر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس بحران کا خاتمہ کب ہوگا اور کب دنیا میں معمول کی کاروباری اورتجارتی سرگرمیاں بحال ہوگی ، اس لئے یہ وبا معاشی طورپر دنیا کو کتنی بھاری پڑے گی اس کا بھی تاحال اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے ۔ البتہ پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے اس تباہ کن صورتحال کے اندر سے امکان اور امید کی ایک کرن ضرور نمودار ہوسکتی ہے، وہ یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بڑی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے ۔ آپ میں سے زیادہ تر افراد کو نائن الیون کا واقعہ یاد ہوگا، اس واقعے کے بعد یورپ، امریکہ اوردیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں کیلئے نفرت کی ایک فضا بن گئی تھی اور تارکین وطن مسلمان ان ممالک میں خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے، ان لوگوں میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی، نائن الیون کے بعد پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنا شروع کیا تھا کہ ان کے اپنے ملک یعنی پاکستان میں بھی کچھ اثاثے ہونے چاہئیں ، زیادہ نہیں توکم از کم ایک مکان ضرور ہونا چاہئے تاکہ اگر کسی بھی وجہ سے مغربی ممالک کی زمین ان پر تنگ ہو اور وہ اپنے ملک جانے پر مجبور ہوں توکم ازکم وہاں ان کے رہنے کیلئے گھر توموجود ہو ۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں تیزی آنے کی ایک بڑی وجہ نائن الیون کا واقعہ بھی تھا ۔ ماضی کی اس مثال کی بنیاد پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے بھی اب یورپ ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں میں اسی قسم کی سوچ پروان چڑھے گی ۔ وہ تارکین وطن جنہوں نے امن وامان کی مثالی صورتحال ، روزگار، تعلیم اورصحت کی بہترین سہولتوں کی وجہ سے یورپ کو جنت سمجھ کر وہاں زندگی بھر رہنے کافیصلہ کیا تھا اور اپنا سارا سرمایہ وہی لگارکھا تھا ، ان کی سوچ اب بدل جائے گی ۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ یورپ میں اس قسم کی بدترین صورتحال پید اہوگی ۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس وبا کی وجہ سے یورپ میں مستقبل کا معاشی نقشہ کیا ہوگا ۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان بھی اس وبا سے محفوظ نہیں اور یہاں یورپ جیسی سہولتیں بھی نہیں ، پھر کیوں کرتارکین وطن پاکستان کو یورپ پر ترجیح دینگے ؟ اس سوال کاجواب یہ ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ مشکل اورپریشان کن حالات میں اس کو اپنا وطن اوراپنا گھر یاد آتا ہے اورایسے حالات میں وہ اپنے وطن میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہے، دیار غیر میں لاکھ سہولتیں سہی لیکن جس تحفظ کا احساس انسان کو اپنے گھر یا اپنے وطن میں ہوتاہے وہ پردیس میں کہاں ۔ اپنا وطن اپنا ہوتا ہے، یہاں عزیز رشتہ دار ہوتے ہیں ، جن کی موجودگی سے انسان کو مشکل وقت میں سہارے کا احساس ہوتا ہے ۔ ان نکات کی بنیاد پر ہماراخیال ہے کہ اس وقت یورپ یا امریکہ میں جو پاکستانی ہیں ان میں سے بیشتر کو اپنا وطن شدت سے یاد آرہا ہوگا،کئی ایک تو کسی نہ کسی طرح وہاں سے نکل کرپاکستان آبھی چکے ہیں اوراگر پروازیں بند نہ ہوئی ہوتیں تواب تک بڑی تعداد میں مزید بھی آچکے ہوتے ۔ مختصر یہ کہ کورونا کی وبا نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں خاص کر یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں مستقل طورپر مقیم پاکستانیوں کی اس سوچ کوشدید دھچکا پہنچایا ہے کہ پاکستان میں کیا رکھا ہے، وہاں کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے ،وہاں جاکر کیا کرنا ہے، وغیروغیرہ ۔ اب یہ لوگ پھر سے وطن کے ساتھ رابطے بحال کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں گے اوران کی اسی سوچ کو بنیاد بنا کر یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان لوگوں کی جانب سے پاکستان
کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بہت سرمایہ آسکتا ہے جس سے مارکیٹ میں تیزی آئے گی ۔ آپ کا تجربہ اس بارے میں کیا کہتا ہے ؟ کیا آپ اس تجزیئے سے اتفاق کرتے ہیں ؟یا اس کے برعکس سوچتے ہیں ؟ ہ میں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے ۔ ہم آپ کی رائے آپ کی تصویر ، نام اورایجنسی کے نام کے ساتھ کلفٹن ٹائمز کے آئندہ شمارے میں شامل کریں گے ۔